عمر بھر لمحۂ تسخیر میں رہنے دیا جائے
عشق شامل مِری تقدیر میں رہنے دیا جائے
زندہ رہنے کا ہُنر غم نے سکھایا ہے مجھے
میرا دشمن مِری جاگیر میں رہنے دیا جائے
ابھی موزوں نہیں ماحول محبت کے لیے
ذکر میرا ابھی تاخیر میں رہنے دیا جائے
سانس لیتا ہو دشمن تو یہ ممکن ہی نہیں
خون کی پیاس کو شمشیر میں رہنے دیا جائے
ہم کہ بدنامِ زمانہ ہیں یہ خواہش ہے، ہمیں
محفلِ صاحب توقیر میں رہنے دیا جائے
رہن رکھ دی گئیں آنکھیں مِری خوابوں کے عوض
اب مجھے حسرتِ تعبیر میں رہنے دیا جائے
نوازش علی ندیم
No comments:
Post a Comment