ظلم و جور کو کب تک مصلحت میں تولیں گے
اس صدی کے دانشور کب زبان کھولیں گے
راس آ گئی جن کو بھیک آب و دانے کی
وہ طیور اب ہرگز بال و پر نہ کھولیں گے
بے حسی کے جذبوں کو خون کی ضرورت ہے
کب ضمیر جاگیں گے، کب عوام بولیں گے
اہلِ کبر و نخوت کی اپنی آستینوں میں
وہ جو سانپ پلتے ہیں اور زہر گھولیں گے
چپ رہے تو ظالم کو فرصتِ ستم ہو گی
ہم قلم اٹھائیں گے، ہم زبان کھولیں گے
اہلِ ہفت کشور کو آج تک کی مہلت ہے
کل زمین الٹے گی تخت و تاج ڈولیں گے
عاشور کاظمی
No comments:
Post a Comment