Thursday 28 October 2021

کہاں فسانۂ شب گیر کے ستارے گئے

 کہاں فسانۂ شب گیر کے ستارے گئے

اسی تلاش میں آئے تھے، آ کے مارے گئے

بس اتفاق تھا اس در پہ دو گھڑی کا قیام

پھر اس کے بعد اسی نام سے پکارے گئے

اب اس کے بعد جو گزرے گی، خوب گزرے گی

اسی امید پہ یہ زندگی گزارے گئے 

عبور کرنا تھا ہم کو یُگوں کا بند، سو ہم

قبا سمیٹے گئے، اور بدن اتارے گئے

اسے گماں تھا کہ اک بار ڈوب جائیں گے ہم

اسی گماں میں کئی بار آبشارے گئے


راغب اختر

No comments:

Post a Comment