ہوا سکوں بھی میسر تو اضطراب رہا
دلِ خراب، ہمیشہ دلِ خراب رہا
سبھی کے سامنے محفل میں باحجاب رہا
ہمارے ساتھ مگر چاند بے نقاب رہا
گہن کا سایا بھی آنے نہیں دیا اس پر
ہماری آنکھ میں جب تک وہ ماہتاب رہا
ہمارے ہاتھ میں جب تک رہا تیرا دامن
ہماری مُٹھی میں گویا کہ آفتاب رہا
بدل سکی نہ میں تقدیر کی لکھاوٹ کو
جو خواب تھا وہ ہمیشہ ہی میرا خواب رہا
جہاں شگفتہ! ستایا گیا یتیموں کو
کوئی جگہ ہو مسلسل وہاں عذاب رہا
شگفتہ یاسمین
No comments:
Post a Comment