دن گزرتا ہے نوکری کر کے
رات کٹتی ہے شاعری کر کے
اب تراشیں گے ناخنوں کو بھی
زخمِ دل کی رفو گری کر کے
عشق خیرات ہی میں مل جائے
اس کے در پر گداگری کر کے
کیا ہم انسانیت بچا لیں گے؟
کوئی کارِ پیعمبری کر کے
ناز اس کےاٹھائیں گے ہم بھی
کچھ تو پا لیں گے دلبری کر کے
ان کے آدابِ گفتگو دیکھو
چل دئیے ہیں سخنوری کر کے
رنگِ اُلفت بنا ادھوری ہے
زندگی بھی مصوری کر کے
اب تو سیما معاف کر دو اسے
ہے پشیماں وہ خود سری کر کے
عشرت معین سیما
No comments:
Post a Comment