Saturday, 30 October 2021

دن گزرتا ہے نوکری کر کے

 دن گزرتا ہے نوکری کر کے

رات کٹتی ہے شاعری کر کے

اب تراشیں گے ناخنوں کو بھی

زخمِ دل کی رفو گری کر کے

عشق خیرات ہی میں مل جائے

اس کے در پر گداگری کر کے

کیا ہم انسانیت بچا لیں گے؟

کوئی کارِ پیعمبری کر کے 

ناز اس کےاٹھائیں گے ہم بھی

کچھ تو پا لیں گے دلبری کر کے

ان کے آدابِ گفتگو دیکھو

چل دئیے ہیں سخنوری کر کے

رنگِ اُلفت بنا ادھوری ہے

زندگی بھی مصوری کر کے

اب تو سیما معاف کر دو اسے

ہے پشیماں وہ خود سری کر کے


عشرت معین سیما

No comments:

Post a Comment