تیرے جوار میں کچھ کم نصیب ایسے تھے
تجھے نظر ہی نہ آئے قریب ایسے تھے
تجھے عزیز تھے دل سے تو پھر شکایت کیا
میرے رفیق تھے، میرے رقیب ایسے تھے
خوشی خوشی سے لٹا دی، الم سمٹ لیے
کرے گی ناز سخاوت غریب ایسے تھے
کچھ اتنے سادہ کہ سادگی کو بھی حیرت
سمجھ نہ آئے کسی کو عجیب ایسے تھے
بیان کر دیا آنکھوں میں حالِ دل اپنا
زباں سے کچھ نہ کہا ہم خطیب ایسے تھے
اداس کر کے نہ پوچھو؛ اداس کیوں ہو قمر
گِلا کسی سے نہیں ہے نصیب ایسے تھے
قمر زیدی
No comments:
Post a Comment