Saturday 30 October 2021

اے خار خار حسرت کیا کیا فگار ہیں ہم

اے خار خار حسرت کیا کیا فگار ہیں ہم

کیا حال ہو گا اس کا جس دل میں خار ہیں ہم

ہر چند دل میں تیرے ظالم غبار ہیں ہم

کتنے دبے ہوئے ہیں کیا خاکسار ہیں ہم

کیا جانے کیا دکھائے کم بخت راز دشمن

بے اختیار ہو تم اور بے قرار ہیں ہم

واں شوخیوں نے مارے ناکام کیسے کیسے

یاں سادگی سے کیا کیا امیدوار ہیں ہم

نے رخت میکدے میں، نے کعبے کا ارادہ

ہیں دل لگی کے بندے یاروں کے یار ہیں ہم

واں سرگزشت دشمن وہ کہہ رہے ہیں منہ پر

یاں بے خودی ہے اس پر کیا راز دار ہیں ہم

ساقی! تِری نگاہیں کب تک رہیں گی پلٹی

ہے نشہ زاہدوں کو اور بادہ خوار ہیں ہم

کعبہ ہے سنگ بالیں زہاد خفتہ دل کا

اور مے کدے کے اندر شب زندہ دار ہیں ہم

اللہ رے ظرف دل کا سب کی جگہ ہے اس میں

بے غم رہے ہے دشمن کیا غمگسار ہیں ہم

اے حشر بچ کے چلنا، اے چرخ ہٹ کے گرنا

ہے برق سایہ جس کا وہ خار زار ہیں ہم

اتنی خلش مژہ کی اب بڑھ گئی کہ گویا

زخمِ دلِ عدو میں خنجر گزار ہیں ہم

کب تک رہے گا دشمن جامے سے اپنے باہر

ہو آگ آگ جس سے تم وہ شرار ہیں ہم

دشمن کی جیب میں تم صبر و شکیب میں ہم

تم دست کو تہی ہو، پائے نگار ہیں ہم

وادئ جستجو سے گزریں تو کیا عجب ہے

وارفتہ کیسے کیسے لیل و نہار ہیں ہم

کیا بادۂ جوانی مرد آزماں نشہ تھا

اب اے قلق وبال خواب و خمار ہیں ہم


قلق میرٹھی

No comments:

Post a Comment