اپنا گھر بھی کوئی آسیب کا گھر لگتا ہے
بند دروازہ جو کُھل جائے تو ڈر لگتا ہے
بعد مُدت کے مُلاقات ہوئی ہے اس سے
فرق اتنا ہے کہ اب اہلِ نظر لگتا ہے
اس زمانے میں بھی کچھ لوگ ہیں فن کے استاد
کام کوئی بھی کریں دستِ ہُنر لگتا ہے
جس نے جی چاہا اسے لوٹ کے پامال کیا
اپنا دل بھی ہمیں دلی سا نگر لگتا ہے
اپنی کچھ بات ہے احباب میں ورنہ اے شمس
سب دُھواں ہے وہ جہاں کوئی شجر لگتا ہے
شمس رمزی
No comments:
Post a Comment