Sunday, 31 October 2021

نہ گھر سکون کدہ ہے نہ کارخانۂ عشق

 نہ گھر سکون کدہ ہے نہ کارخانۂ عشق

مگر یہ ہم ہیں کہ لکھتے رہے ہیں نامۂ عشق

بہت سے نام تھے اب کوئی یاد آتا نہیں

ہمارے دل میں رہا دفن اک خزانۂ عشق

سب اپنے اپنے طریقے سے بھیک مانگتے ہیں

کوئی بنامِ محبت کوئی بہ جامۂ عشق

تمہی پہ کیا کہ ہم اب خود پہ بھی نہیں کھلتے

تو کیا یہ کم ہے کہ ہم پر کُھلا فسانۂ عشق

کئی زمانے گئے اور بدل گیا سب کچھ

مگر کبھی نہیں بدلا تِرا زمانۂ عشق

سلگتے رہنے کی لذت اسے کہاں معلوم

کہ جب تلک کوئی بنتا نہیں نشانۂ عشق

اسے پھر اپنی خبر بھی نہیں رہی عابد

لگا ہے جس کو بھی اک بار تازیانۂ عشق


عابد ودود

No comments:

Post a Comment