وہ اپنی گفت میں انکار بھی نہیں کرتا
عجیب شخص ہے اقرار بھی نہیں کرتا
حقارتوں کا بھی اظہار برملا نہ ہوا
وہ کہہ رہا ہے؛ مجھے پیار بھی نہیں کرتا
غرور و رشک کے نشتر اٹھائے رکھتا ہے
پہ سامنے سے مجھ پہ وار بھی نہیں کرتا
میں اپنے کرب میں اس کو صدائیں دیتی ہوں
انوکھا یار ہے جو یار بھی نہیں کرتا
تکلفات کا پردہ گرایا ایسے ہے
کبھی چھپے ہے کبھی عار بھی نہیں کرتا
میں ایک عارضی جذبے کو مستقل سمجھوں
انا میں مست ہے، سرشار بھی نہیں کرتا
لامعہ شمس
No comments:
Post a Comment