وفا کے بدلے تمہارا عتاب کیسا ہے
محبتوں کا مِری یہ جواب کیسا ہے
تھا آج سنگ مقدر مِرے لیے لیکن
تمہارے ہاتھ میں تازہ گلاب کیسا ہے
وہ قتل کرتے ہیں ہم آہ بھی نہیں کرتے
ستمگروں کو ہمارا جواب کیسا ہے
امیر شہر سے کہہ دو غریب شہر کوئی
فصیلِ شہر تلے محوِ خواب کیسا ہے
اگر حیات ہے نغمہ تو پھر بتائے کوئی
یہ کلفتوں کا مسلسل عذاب کیسا ہے
نہ بُوند ہی کوئی برسی نہ برق ہی چمکی
ہمارے شہر پہ چھایا سحاب کیسا ہے
پاشا رحمان
No comments:
Post a Comment