اس کی آنکھوں میں حیا اور اشارا بھی ہے
بند ہونٹوں سے مجھے اس نے پکارا بھی ہے
اس نے کاندھے پہ ہمارے جو کبھی سر رکھا
یوں لگا زیست میں کوئی تو ہمارا بھی ہے
ریت بھی گرم ہے اور دھوپ بھی ہے تیز مگر
اس کی پُر کیف رفاقت کا سہارا بھی ہے
چوم کر ہاتھ مِرا دیتا ہے وہ دل کو کسک
کیسا دشمن ہے کہ جو جان سے پیارا بھی ہے
اس کے رخسار پہ بارش کی وہ ہلکی بوندیں
پھول پر قطرۂ شبنم کا نظارا بھی ہے
اتنا اِترانا بھی کچھ ٹھیک نہیں، یاد رہے
زیست میں نفع بھی ہے اور خسارا بھی ہے
تیرتا جاتا ہوں اور سوچ رہا ہوں انجم
اس سمندر کا کہیں کوئی کنارا بھی ہے
مشتاق انجم
No comments:
Post a Comment