Sunday, 31 October 2021

اس کی آنکھوں میں حیا اور اشارہ بھی ہے

 اس کی آنکھوں میں حیا اور اشارا بھی ہے

بند ہونٹوں سے مجھے اس نے پکارا بھی ہے

اس نے کاندھے پہ ہمارے جو کبھی سر رکھا

یوں لگا زیست میں کوئی تو ہمارا بھی ہے

ریت بھی گرم ہے اور دھوپ بھی ہے تیز مگر

اس کی پُر کیف رفاقت کا سہارا بھی ہے

چوم کر ہاتھ مِرا دیتا ہے وہ دل کو کسک

کیسا دشمن ہے کہ جو جان سے پیارا بھی ہے

اس کے رخسار پہ بارش کی وہ ہلکی بوندیں

پھول پر قطرۂ شبنم کا نظارا بھی ہے

اتنا اِترانا بھی کچھ ٹھیک نہیں، یاد رہے

زیست میں نفع بھی ہے اور خسارا بھی ہے

تیرتا جاتا ہوں اور سوچ رہا ہوں انجم

اس سمندر کا کہیں کوئی کنارا بھی ہے


مشتاق انجم

No comments:

Post a Comment