Thursday, 28 October 2021

آکاش کی حسین فضاؤں میں کھو گیا

 آکاش کی حسین فضاؤں میں کھو گیا

میں اس قدر اڑا کہ خلاؤں میں کھو گیا

کترا رہے ہیں آج کے سقراط زہر سے

انسان مصلحت کی اداؤں میں کھو گیا

شاید مِرا ضمیر کسی روز جاگ اٹھے

یہ سوچ کے میں اپنی صداؤں میں کھو گیا

لہرا رہا ہے سانپ سا سایہ زمین پر

سورج نکل کے دور گھٹاؤں میں کھو گیا

موتی سمیٹ لائے سمندر سے اہلِ دل

وہ شخص بے عمل تھا دعاؤں میں کھو گیا

ٹھہرے ہوئے تھے جس کے تلے ہم شکستہ پا

وہ سائباں بھی تیز ہواؤں میں کھو گیا


کامل بہزادی

No comments:

Post a Comment