آکاش کی حسین فضاؤں میں کھو گیا
میں اس قدر اڑا کہ خلاؤں میں کھو گیا
کترا رہے ہیں آج کے سقراط زہر سے
انسان مصلحت کی اداؤں میں کھو گیا
شاید مِرا ضمیر کسی روز جاگ اٹھے
یہ سوچ کے میں اپنی صداؤں میں کھو گیا
لہرا رہا ہے سانپ سا سایہ زمین پر
سورج نکل کے دور گھٹاؤں میں کھو گیا
موتی سمیٹ لائے سمندر سے اہلِ دل
وہ شخص بے عمل تھا دعاؤں میں کھو گیا
ٹھہرے ہوئے تھے جس کے تلے ہم شکستہ پا
وہ سائباں بھی تیز ہواؤں میں کھو گیا
کامل بہزادی
No comments:
Post a Comment