ہیں گھر کی محافظ مری دہکی ہوئی آنکھیں
میں طاق میں رکھ آیا ہوں جلتی ہوئی آنکھیں
اک پل بھی کسی موڑ پہ رکنے نہیں دیتیں
کانٹوں کی طرح جسم میں چبھتی ہوئی آنکھیں
رستے میں قدم پھونک کے رکھنا میرے پیارو
ہیں چاروں طرف شہر میں بکھری ہوئی آنکھیں
یوں اس کے بچھڑ جانے پہ آنسو نہ بہاؤ
منظر کو ترس جائیں گی بھیگی ہوئی آنکھیں
قاتل کے سوا کوئی سمجھ ہی نہیں سکتا
کیا دیکھتی ہیں طشت میں رکھی ہوئی آنکھیں
کیا جانیۓ کس خواب کی تعبیر میں گم ہیں
زلفوں کی گھنی چھاؤں میں الجھی ہوئی آنکھیں
ساغر! شبِ تیرہ میں اجالوں کی امیں ہیں
نفرت کے سمندر میں یہ بہتی ہوئی آنکھیں
امتیاز ساغر
No comments:
Post a Comment