Friday 29 October 2021

ہیں گھر کی محافظ مری دہکی ہوئی آنکھیں

 ہیں گھر کی محافظ مری دہکی ہوئی آنکھیں

میں طاق میں رکھ آیا ہوں جلتی ہوئی آنکھیں

اک پل بھی کسی موڑ پہ رکنے نہیں دیتیں

کانٹوں کی طرح جسم میں چبھتی ہوئی آنکھیں

رستے میں قدم پھونک کے رکھنا میرے پیارو

ہیں چاروں طرف شہر میں بکھری ہوئی آنکھیں

یوں اس کے بچھڑ جانے پہ آنسو نہ بہاؤ

منظر کو ترس جائیں گی بھیگی ہوئی آنکھیں

قاتل کے سوا کوئی سمجھ ہی نہیں سکتا

کیا دیکھتی ہیں طشت میں رکھی ہوئی آنکھیں

کیا جانیۓ کس خواب کی تعبیر میں گم ہیں

زلفوں کی گھنی چھاؤں میں الجھی ہوئی آنکھیں

ساغر! شبِ تیرہ میں اجالوں کی امیں ہیں

نفرت کے سمندر میں یہ بہتی ہوئی آنکھیں


امتیاز ساغر

No comments:

Post a Comment