تیرہ بختی جو مقدر ہو جائے
پھول سا جسم بھی پتھر ہو جائے
اشک رک جائے تو آنکھیں بے نور
اور ڈھل جائے تو گوہر ہو جائے
روح صحرا کی طرح پیاسی ہے
چشمِ بے آب سمندر ہو جائے
روزنِ شہر پہ آنکھیں ہیں دھری
اے خدا! وا کوئی منظر ہو جائے
عشق دنیا بھی عجب دنیا ہے
ہجر جو کاٹے پیمبر ہو جائے
دولتِ چشمِ کرم ملتے ہی
تاج والا بھی گداگر ہو جائے
عشق کی لے پہ ہیں رقصاں ہم تم
کون کب جانے قلندر ہو جائے
امتیاز ساغر
No comments:
Post a Comment