ہم ہیں ٹوٹے ہوئے ہم ہیں ہارے ہوئے
داستانوں میں وہ جو ہیں مارے ہوئے
زندگی کے فریبوں سے کس کو مفر
اس کے ہاتھوں گرفتار سارے ہوئے
وہ جو بجھتے گئے تیرگی بن گئے
وہ جو روشن رہے وہ ستارے ہوئے
دیکھ ہم بھی ذبیحوں کے اس ڈھیر میں
تیرے قدموں پہ کب سے ہیں وارے ہوئے
لوگ ہیں خوف کی دائمی قید میں
خود سے ملتے ہیں سب روپ دھارے ہوئے
اپنے حصے میں آئی ہے کیا زندگی
راتیں بیتی ہوئیں دن گزارے ہوئے
شاہد فیروز
No comments:
Post a Comment