Sunday, 31 October 2021

ہم ہیں ٹوٹے ہوئے ہم ہیں ہارے ہوئے

 ہم ہیں ٹوٹے ہوئے ہم ہیں ہارے ہوئے

داستانوں میں وہ جو ہیں مارے ہوئے

زندگی کے فریبوں سے کس کو مفر

اس کے ہاتھوں گرفتار سارے ہوئے

وہ جو بجھتے گئے تیرگی بن گئے

وہ جو روشن رہے وہ ستارے ہوئے

دیکھ ہم بھی ذبیحوں کے اس ڈھیر میں

تیرے قدموں پہ کب سے ہیں وارے ہوئے

لوگ ہیں خوف کی دائمی قید میں

خود سے ملتے ہیں سب روپ دھارے ہوئے

اپنے حصے میں آئی ہے کیا زندگی

راتیں بیتی ہوئیں دن گزارے ہوئے


شاہد فیروز

No comments:

Post a Comment