ابھی تو محوِ تجلی ہیں سب دکانوں پر
پلٹ کے دیکھیۓ آتے ہیں کب مکانوں پر
خیال خام میں گزری ہے زندگی ساری
حقیقتوں کا گماں ہے ابھی فسانوں پر
قدم قدم پہ تضادوں سے سابقہ ہے جہاں
یقین کیسے کرے کوئی ان گمانوں پر
وہ جس کی چاہ میں مر مر کے جی رہے ہیں یہاں
نہ جانے کون سی بستی ہے آسمانوں پر
جہاں بھی تیر لگا بس وہی ہدف ٹھہرا
ہے پھر بھی زعم بہت ان کو ان کمانوں پر
میں ان کی بات کو کس طور معتبر جانوں
مدار زیست ہی جن کا ہے کچھ بہانوں پر
کڑی ہے دھوپ جھلستی ہیں اب دلیلیں سبھی
یقیں ہے پھر بھی انہیں کتنا سائبانوں پر
نظر میں ذہن میں دل میں کشادگی لاؤ
ہوا کے رخ کا تقاضا ہے بادبانوں پر
نہ جانے کتنی ہی صدیاں لگیں گی اور ابھی
دلوں کی بات جب آ پائے گی زبانوں پر
عجیب ان کو سلیقہ ہے کھل کے جینے کا
نئی ہے کون سی تہمت یہ ہم دوانوں پر
ہماری ذات سے آباد کچھ خرابے ہیں
ہے اپنے دم سے اجالا کئی مقاموں پر
خرد نواز جنوں اور جنوں نواز خرد
ہیں اب بھی نور طریقے یہ کچھ ٹھکانوں پر
اسے جگاؤ ڈسے تم کو مار ڈالے تمہیں
تمہاری ذات میں بیٹھا ہے جو خزانوں پر
جعفر عباس
No comments:
Post a Comment