Sunday, 31 October 2021

مایوس نہ ہو خود سے نہ منکر ہو خدا سے

 مایوس نہ ہو خود سے نہ منکر ہو خدا سے

دیتا ہوں شب و روز یہی خود کو دلاسے

منظور نجانے وہ دعا کیوں نہیں ہوتی

نہ دل سے خدا دور ہے نہ دستِ دعا سے

ہے جرم تیری یاد تو تنہائی مقدر

ایسے میرا جینا بھی کوئی کم ہے سزا سے

شاید مجھے مرنے سے بھی تکلیف نہ ہوتی

مانوس نہ ہوتا جو تیرے بندِ قبا سے

ناراض تھا شاید وہ کسی بات پہ میری

لہجہ بھی بڑا تلخ تھا تیور تھے خفا سے

سر کاٹ لو میرا جو محبت میں کمی ہو

سر جھک نہیں سکتا یہ مگر جور و جفا سے

اب حسنِ تکلم پہ ذرا دیجے توجہ

دِل بھر بھی تو سکتا ہے میرا تیری ادا سے

یہ عشق کا غم ہی غمِ دنیا سے بچائے

یہ مرض بڑا بھی ہے طبیبوں کی دوا سے

جیسے وہ بجھا اس کا دھواں تا بہ فلک تھا

جیسے کہ دیا جیت گیا تند ہوا سے

رسمی سی عیادت پہ عطش کہہ دو یہ رسماً

پہلے سے ذرا فرق ہے اب تیری دعا سے


عطش نقوی

No comments:

Post a Comment