کسی کو راج دلارے فریب دیتے رہے
کسی کو جان سے پیارے فریب دیتے رہے
یقین ملتا رہا تھرتھراتے ہونٹوں سے
مگر نظر کے اشارے فریب دیتے رہے
تمام رات میں چلتا رہا ہوں کانٹوں پر
تمام رات ستارے فریب دیتے رہے
کنول کھلا تھا محبت کا جس کے پانی پر
وہ جھیل اس کے کنارے فریب دیتے رہے
سراب بنتا گیا پل میں ہر حسیں منظر
مجھے تو سارے نظارے فریب دیتے رہے
وفا نہ کرتا اگر اک حسیں تو بات بھی تھی
اسد کو سارے کے سارے فریب دیتے رہے
اسد رضوی
No comments:
Post a Comment