Thursday 28 October 2021

کسی کو راج دلارے فریب دیتے رہے

 کسی کو راج دلارے فریب دیتے رہے

کسی کو جان سے پیارے فریب دیتے رہے

یقین ملتا رہا تھرتھراتے ہونٹوں سے

مگر نظر کے اشارے فریب دیتے رہے

تمام رات میں چلتا رہا ہوں کانٹوں پر

تمام رات ستارے فریب دیتے رہے

کنول کھلا تھا محبت کا جس کے پانی پر

وہ جھیل اس کے کنارے فریب دیتے رہے

سراب بنتا گیا پل میں ہر حسیں منظر

مجھے تو سارے نظارے فریب دیتے رہے

وفا نہ کرتا اگر اک حسیں تو بات بھی تھی

اسد کو سارے کے سارے فریب دیتے رہے


اسد رضوی

No comments:

Post a Comment