Friday 29 October 2021

ہاتھوں میں آج کی شب مہندی لگائیے گا

 ہاتھوں میں آج کی شب مہندی لگائیے گا

سمجھے یہ رنگ ہم بھی کچھ رنگ لائیے گا

یہ شوخیاں تمہاری لکھی ہوئی ہیں دل پر

آخر کبھی تو میرے قابو میں آئیے گا

پھر میں بھی کچھ کہوں گا دیکھو زبان روکو

پھر منہ چھپا کے مجھ سے آنسو بہائیے گا

ذات شریف ہو تم میں خوب جانتا ہوں

طوفان اور کوئی مجھ پر اٹھائیے گا

ہاں شمع کا میں گل ہوں ناصح کی گفتگو ہوں

بڑھ جاؤں گا جہاں تک مجھ کو گھٹائیے گا

امیدوار باقی کچھ اور رہ گئے ہیں

پھر بھی نقاب گیسو منہ سے ہٹائیے گا

بے وجہ یہ نہیں ہے انداز گفتگو کا

پھر کل کی طرح اے جاں باتیں سنائیے گا

میں ہوں مزاج قاتل لازم ہے خوف مجھ سے

جھوٹی قسم نہیں ہوں ہر دم جو کھائیے گا

یہ کیوں ہے ناامیدی درگاہ کبریا سے

جو کچھ کہ آرزو ہے ویسا ہی پائیے گا

مشتاق نے تو جاں دی گلگوں لباس کیوں ہو

یہ رنگ نو عروسی کس کو دکھائیے گا

دیکھو، رقیب آئے دیکھو رقیب آئے

کیا منہ اب آپ کا ہے جو منہ چھپائیے گا

ہم خوب جانتے ہیں استادیاں تمہاری

محفل میں بیٹھے بیٹھے آنکھیں ملایئے گا

آخر کچھ انتہا بھی بے رحمیوں کی صاحب

کہیے تو عاشقوں کو کب تک ستائیے گا

ممکن نہیں جو نیت بدلے تمہاری اے جاں

کیا قہر آج کی شب ہم پر نہ لائیے گا

کچھ لحظہ اور ٹھہرو تا روح تن سے نکلے

آئے گی اور آفت، گر آپ جائیے گا

سمجھے ہوئے ہیں جو کچھ دل میں بھرے ہوئے ہے

کاہے کو آئیے گا، کاہے کو آئیے گا

آؤ تو جلد آؤ دم بھر کے بعد اے جاں

مجھ کو نہ پائیے گا، مجھ کو نہ پائیے گا

سن لیجئے گا جو کچھ مدت سے آرزو ہے

فرصت ہو گر میسر دم بھر کو آئیے گا

کچھ دور میں نہیں ہوں لازم ہے یاد کرنی

مانند دل مجھے بھی پہلو میں پائیے گا

ٹھنڈی کبھی نہ ہوں گی کیا گرمیاں تمہاری

آخر نسیم کا دل کب تک جلائیے گا


نسیم دہلوی

No comments:

Post a Comment