Wednesday, 27 October 2021

کچھ تو کم تشنگئ آتش صحرائی کر

 کچھ تو کم تشنگئ آتشِ صحرائی کر

آبلہ پا ہی سہی، بادیہ پیمائی کر

لالہ و گل کو رخِ یار کا شیدائی کر

قیس چل دشت میں پھر انجمن آرائی کر

عقل کو خوف کہیں آبِ انا ٹوٹ نہ جائے

مستئ حسن یہ کہتی ہے؛ پذیرائی کر

صورتِ موج تڑپ دودِ چراغِ محفل

خوگرِ بزم کو پھر عاشقِ تنہائی کر

موجِ دریا، رمِ آہو، غمِ ہجراں بن کر

رقص کر وحشتِ دل ان کو تماشائی کر

حسن عیار سہی،۔ عشق وفادار سہی

اک ذرا صبر، نہ یوں شکوۂ ہرجائی کر

جادہ جادہ تِری یادوں کے دِیے روشن ہیں

رشتۂ درد بنا،۔ خار شناسائی کر

پا بجولاں تِری محفل میں بچارا بزمی

اب تو کر دادرسی، اب تو نہ رسوائی کر


سرفراز بزمی

No comments:

Post a Comment