Sunday, 31 October 2021

امید و بیم کے عالم میں دل دہلتا ہے

 امید و بیم کے عالم میں دل دہلتا ہے

وہ آتے آتے کئی راستے بدلتا ہے

ابھی تو شام ہے تنقید کر نہ رِندوں پر

سنا ہے رات گئے مے کدہ سنبھلتا ہے

نہ کوئی خوف نہ اندیشہ اور نہ رختِ سفر

یہ کون ہے جو مِرے ساتھ ساتھ چلتا ہے

ہمارے واسطے جس جا پہ حد فاصل ہے

وہیں سے ایک نیا راستہ نکلتا ہے

عجیب چیز ہے یہ کربِ خود کلامی بھی

جو بات کیجے تو اک سلسلہ نکلتا ہے

نہ جانے کتنے سر پر غرور کٹتے ہیں

عجیب شخص ہے تلوار بن کے چلتا ہے

حباب شکوہ بجا، لاؤ نقدِ جاں کے طفیل

تمہارے نام کا سِکہ یہاں بھی چلتا ہے


حباب ہاشمی

No comments:

Post a Comment