اب کہاں مجھ سے کوئی بات بھلا بنتی ہے
دن تو مشکل ہی سہی رات بھلا بنتی ہے
دلنشیں تیری محبت سے تو بھر لوں دامن
ہجر زادے کی یہ اوقات بھلا بنتی ہے
لائے جو میرے لیے اہلِ جنوں کا زیور
تم بتاؤ کہ یہ سوغات بھلا بنتی ہے؟
مجھ سے یوں چھین لیے سارے حقوق
لاکھ رنجش تھی مگر مات بھلا بنتی ہے
حلقۂ عشق میں احبابِ خِرد جتنے ہوں
قیس اک شخص تھا پہ ذات بھلا بنتی ہے
لامعہ شمس
No comments:
Post a Comment