ہجر کی بے تابیاں تھیں حسرتوں کا جوش تھا
حسن کا آغوش پھر بھی حسن کا آغوش تھا
ہم تو جس محفل میں بیٹھے شغل ناؤ نوش تھا
زندگی میں موت بھی آئے گی کس کو ہوش تھا
ضبط کرتے کرتے آخر پھوٹ نکلی دل کی بات
ہنس پڑا گلشن میں جو بھی غنچۂ خاموش تھا
احترامِ حسن کہئے یا اسے رعبِ جمال
ان کا پردے سے نکلنا تھا کہ میں بے ہوش تھا
مجھ سے پوچھو سرگزشتِ مے کدہ بادہ کشو
تھا کبھی میرا بھی عالم میں بھی بادہ نوش تھا
لغزشیں میری مسلّم ابتدائے عشق میں
آپ کو بھی کچھ خبر تھی آپ کو بھی ہوش تھا
عشق کا اعجاز تھا، یہ عشق کی تاثیر بھی
دل سے جو نالہ نکلتا تھا سکونِ گوش تھا
کوئی کیا سمجھا مِری دیوانگی کو، کیا خبر
آپ کی نظروں میں تھا اتنا تو مجھ کو ہوش تھا
آج تسبیح و مصلیٰ لے کے عارف بن گیا
کل جو روحِ مے کدہ تھا رِند و بادہ نوش تھا
عثمان عارف
No comments:
Post a Comment