Saturday 30 October 2021

ہجر کی بے تابیاں تھیں حسرتوں کا جوش تھا

ہجر کی بے تابیاں تھیں حسرتوں کا جوش تھا

حسن کا آغوش پھر بھی حسن کا آغوش تھا

ہم تو جس محفل میں بیٹھے شغل ناؤ نوش تھا

زندگی میں موت بھی آئے گی کس کو ہوش تھا

ضبط کرتے کرتے آخر پھوٹ نکلی دل کی بات

ہنس پڑا گلشن میں جو بھی غنچۂ خاموش تھا

احترامِ حسن کہئے یا اسے رعبِ جمال

ان کا پردے سے نکلنا تھا کہ میں بے ہوش تھا

مجھ سے پوچھو سرگزشتِ مے کدہ بادہ کشو

تھا کبھی میرا بھی عالم میں بھی بادہ نوش تھا

لغزشیں میری مسلّم ابتدائے عشق میں

آپ کو بھی کچھ خبر تھی آپ کو بھی ہوش تھا

عشق کا اعجاز تھا، یہ عشق کی تاثیر بھی

دل سے جو نالہ نکلتا تھا سکونِ گوش تھا

کوئی کیا سمجھا مِری دیوانگی کو، کیا خبر

آپ کی نظروں میں تھا اتنا تو مجھ کو ہوش تھا

آج تسبیح و مصلیٰ لے کے عارف بن گیا

کل جو روحِ مے کدہ تھا رِند و بادہ نوش تھا


عثمان عارف

No comments:

Post a Comment