باغی روحوں کی بازگشت
حضورِ والا برا نہ مانیں
کہ گُنگ صدیوں کا گُنگ وِرثہ
زبان ملتے ہی گستاخ ٹھہرا
بجا، جسارت بری ہے لیکن
یہ باغی روحوں کی بھٹکی سوچوں
کی پرکاہ برابر بھی وقعت نہیں ہے
ہماری چپ کی زباں درازی
شمارکیوں ہو، حساب کیوں ہو؟
کہ اس کی ڈوری بھی درحقیقت
حضورِ والا کے ہاتھ میں ہے
حضورِ والا بہ فیضِ ثروت، بزورِ قوت
بطرزِ سطوت، بصد رعونت
یہی حقیقت، یہی صداقت
کہ ذی شرف ہیں حضورِ والا
حضورِ والا ہی ذی حشم ہیں
جو آپ کہتے ہیں معتبر ہے
وہ حرفِ آخر ہے مستند ہے
جو آپ سوچیں، ہمالہ چوٹی
جو آپ کرتے ہیں وہ ہُنر ہے
حضورِ والا یہ جادو نگری
یہ جادو نگری ہے، جادو نگری
فریب نظری ہے دستور اس کا
اورآپ ہی بس یہاں سامری ہیں
یعنی خدائے ساحری ہیں
یہ باقی سارے خدامِ ارذل
غلام پیکر، غلام روحیں
جو آپ بخشیں زباں کو ان کی
وہ حرف ہی بس ادا ہیں کرتے
جو آپ سوچیں، وہ فکر ان کی
جو آپ ان کو دکھانا چاہیں
یہ ویسا دیکھیں، یہ ویسا سوچیں
ہو آپ کا گر ذرا اشارہ
تو ان میں جنبش، ہے ان میں حرکت
وگرنہ ساکت یہ جم کے پتھر
حضورِ والا یہاں پہ چہرہ بس اک آپ کا ہے
وگرنہ باقی تو تن ہی تن ہیں ہیں
تن بھی ایسے کہ سر بُریدہ
جو آپ چاہیں تو سر و سہرہ
جو آپ چاہیں تو کوئی چہرہ
اُگا دیں ان پر
سجا دیں ان پر کہ
ان کی اپنی شناخت کیسی؟
غلام زادوں کی اوقات ہی کیا؟
حضورِ والا برا نہ مانیں
کِیا مجسم ہے آج جس کو
یہ کچھ صداؤں کی بازگشت ہے
یہ باغی روحوں کی بازگشت ہے
یہ خاص لمحوں کا اُترا سچ ہے
جو تلخاب صورت چکھا بہت ہے
جو زہراب صورت پیا بہت ہے
حضورِ والا ذرا سی تلخی قبول کر لیں
مشتاق علی شان
No comments:
Post a Comment