Wednesday, 27 October 2021

جلی ہوئی ہیں جو پوریں گلاب ہاتھوں کی

 خلوت


جلی ہوئی ہیں جو پوریں گلاب ہاتھوں کی

سلگ رہا ہے یقینا بدن کا ہر گوشہ

یہ میرے حرف تری روح کے طواف میں ہیں

مجھے بتاتا ہے میرے سخن کا ہر گوشہ


تو میری ذات کو صحرا کا نام دے گا اور

بلا کی تشنہ لبی اپنے ساتھ لائے گا

میں تجھ میں اتروں گا خوشبو سے آشنا ہو کر

تو اپنا آپ کھبی اپنے ساتھ لائے گا


میں اپنے آپ میں لوٹا نہیں ہوں تیرے بعد

کہیں سے کوئی خبر ہی نہیں مری مجھ کو

یہ گھپ اندھیرا مجھے راستہ دکھاتا ہے

تلاش کرنی ہے اک روز روشنی مجھ کو


میں کوئی شام نہیں ہوں جو پھر نہ لوٹے گی

تم اپنے در کے دریچوں سے جھانکتے رہنا

نگہ سے دور ہوں مانا میں اجنبی تو نہیں

یہ کیا کے ہاتھ ملے اور کانپتے رہنا


یہ چند گھڑیاں مرے نام کی مجھے دے دے

یہ ایک لمحہ اکیلے گزارنا ہے مجھے

بہت ہی دور سے بچھڑا ہے ہمسفر میرے

بہت قریب سے تجھ کو پکارنا ہے مجھے


یہ زہر پھیلا ہوا ہے بدن میں شام کے بعد

مرے وجود نے خلوت نشیں تو ہونا ہے

جبیں پہ ہونٹ رکھے آنکھوں سے کلام کرے

دو چار پل سہی تُو نے قریں تو ہونا ہے


فرازاحمد علوی

No comments:

Post a Comment