خلوت
جلی ہوئی ہیں جو پوریں گلاب ہاتھوں کی
سلگ رہا ہے یقینا بدن کا ہر گوشہ
یہ میرے حرف تری روح کے طواف میں ہیں
مجھے بتاتا ہے میرے سخن کا ہر گوشہ
تو میری ذات کو صحرا کا نام دے گا اور
بلا کی تشنہ لبی اپنے ساتھ لائے گا
میں تجھ میں اتروں گا خوشبو سے آشنا ہو کر
تو اپنا آپ کھبی اپنے ساتھ لائے گا
میں اپنے آپ میں لوٹا نہیں ہوں تیرے بعد
کہیں سے کوئی خبر ہی نہیں مری مجھ کو
یہ گھپ اندھیرا مجھے راستہ دکھاتا ہے
تلاش کرنی ہے اک روز روشنی مجھ کو
میں کوئی شام نہیں ہوں جو پھر نہ لوٹے گی
تم اپنے در کے دریچوں سے جھانکتے رہنا
نگہ سے دور ہوں مانا میں اجنبی تو نہیں
یہ کیا کے ہاتھ ملے اور کانپتے رہنا
یہ چند گھڑیاں مرے نام کی مجھے دے دے
یہ ایک لمحہ اکیلے گزارنا ہے مجھے
بہت ہی دور سے بچھڑا ہے ہمسفر میرے
بہت قریب سے تجھ کو پکارنا ہے مجھے
یہ زہر پھیلا ہوا ہے بدن میں شام کے بعد
مرے وجود نے خلوت نشیں تو ہونا ہے
جبیں پہ ہونٹ رکھے آنکھوں سے کلام کرے
دو چار پل سہی تُو نے قریں تو ہونا ہے
فرازاحمد علوی
No comments:
Post a Comment