Thursday, 28 October 2021

جو خود پہ بیٹھے بٹھائے زوال لے آئے

 جو خود پہ بیٹھے بٹھائے زوال لے آئے

کہاں سے ہم بھی لکھا کر کمال لے آئے

کواڑ کھولیں تو اڑ جائیں گی ابابیلیں

نہ جانے ذہن میں کیسا خیال لے آئے

ہر ایک شخص سمجھ کر بھی ہو گیا خاموش

ازل سے چہرے پہ ہم وہ سوال لے آئے

ہیں راکھ راکھ مگر آج تک نہیں بکھرے

کہو ہوا سے ہماری مثال لے آئے

سلگتی بجھتی ہوئی زندگی کی یہ سوغات

شمیم اپنے لیے ماہ و سال لے آئے


فاروق شمیم

No comments:

Post a Comment