جو خود پہ بیٹھے بٹھائے زوال لے آئے
کہاں سے ہم بھی لکھا کر کمال لے آئے
کواڑ کھولیں تو اڑ جائیں گی ابابیلیں
نہ جانے ذہن میں کیسا خیال لے آئے
ہر ایک شخص سمجھ کر بھی ہو گیا خاموش
ازل سے چہرے پہ ہم وہ سوال لے آئے
ہیں راکھ راکھ مگر آج تک نہیں بکھرے
کہو ہوا سے ہماری مثال لے آئے
سلگتی بجھتی ہوئی زندگی کی یہ سوغات
شمیم اپنے لیے ماہ و سال لے آئے
فاروق شمیم
No comments:
Post a Comment