میری بات سنو ری پگلی
روتی کیوں ہو؟
آنسو پونچھو، چپ ہو جاؤ
لازم کب ہے جو دل اک دوجے کو چاہیں
مل بھی جائیں
کب کہتا ہوں نسبت بدلو؟
عزمِ نو سے قسمت بدلو
خوشیاں بانٹو، جینا سیکھو
غصے کو تم پینا سیکھو
میری بات سنو ری پگلی
ٹھہرا پانی بدبو دینے لگتا ہے سو
زیست کو یوں چلتے رہنا ہے
جذبوں پر تم قابو پاؤ
اور مجھے اب بھول ہی جاؤ
رسموں کی اس تیز آندھی میں
دیپ جلا کر
یہ سوچا تھا
روشنیاں تقسیم کریں گے
لیکن یہ بھی خوف ہے دل میں
آخر کب تک رسموں سے ہم لڑ پائیں گے
دیپ ہمارے بجھ جائیں گے
لیکن بانٹ گئے جو کرنیں
وہ زندہ رکھیں گی ہم کو
ایک اِسی امید پہ ہمدم
دل پر چوٹیں سہتے رہنا
کچھ نہ کہنا
الفت کا دستور یہی ہے
خالق کو منظور یہی ہے
شعیب مظہر
No comments:
Post a Comment