خوابوں کا گزر دیدۂ بیدار سے ہو گا
خوشبو کا سفر ہر در و دیوار سے ہو گا
پھر کاسۂ سر کوچۂ قاتل میں سجیں گے
یہ کھیل تو جاری رسن و دار سے ہو گا
ہر حرف سے پھوٹے گی کرن صبحِ جنوں کی
ہر باب رقم جرأتِ اظہار سے ہو گا
پہچان شرافت کی زر و مال سے ہوگی
معیارِ سخن جبہ و دستار سے ہو گا
ہر صبح کی نسبت کسی مظلوم سے ہو گی
آغاز ہر اک شب کا ستم گار سے ہو گا
قیصر تِرے لفظوں کی کسک یاد رہے گی
اندیشۂ دوراں تِرے اشعار سے ہو گا
قیصر عباس
No comments:
Post a Comment