Saturday, 30 October 2021

خوابوں کا گزر دیدۂ بیدار سے ہو گا

 خوابوں کا گزر دیدۂ بیدار سے ہو گا

خوشبو کا سفر ہر در و دیوار سے ہو گا

پھر کاسۂ سر کوچۂ قاتل میں سجیں گے

یہ کھیل تو جاری رسن و دار سے ہو گا

ہر حرف سے پھوٹے گی کرن صبحِ جنوں کی

ہر باب رقم جرأتِ اظہار سے ہو گا

پہچان شرافت کی زر و مال سے ہوگی

معیارِ سخن جبہ و دستار سے ہو گا

ہر صبح کی نسبت کسی مظلوم سے ہو گی

آغاز ہر اک شب کا ستم گار سے ہو گا

قیصر تِرے لفظوں کی کسک یاد رہے گی

اندیشۂ دوراں تِرے اشعار سے ہو گا


قیصر عباس

No comments:

Post a Comment