کیفیت اضطراب کی سی ہے
تیرے خط کے جواب کی سی ہے
صبح پڑھتا ہوں شام پڑھتا ہوں
تُو مکمل کتاب کی سی ہے
سورۂ شمس ہے نظر تیری
شعلگی آفتاب کی سی ہے
تیری موجودگی سرور آگیں
تیری فرقت عذاب کی سی ہے
میری آنکھیں ہیں تتلیوں کی طرح
تیری صورت گلاب کی سی ہے
کیا کرو گے اسد اسے لے کر
جب یہ دنیا حباب کی سی ہے
اسد رضوی
No comments:
Post a Comment