Saturday, 30 October 2021

تنکا تنکا آس بہر آشیاں چنتا رہا

تنکا تنکا آس بہرِ آشیاں چُنتا رہا

زندگی کی راکھ سے چنگاریاں چنتا رہا

یہ میری مثبت روی تھی یا میری مجبوریاں

خامیوں کے ڈھیر سے کچھ خوبیاں چنتا رہا

کس قدر مشروب تُو نے کر دیا عہدِ وفا

سرخیوں کو بھول کر باریکیاں چنتا رہا

موسمِ گل بارہا آیا مگر دیوانہ پن

گلشنِ امید سے مایوسیاں چنتا رہا

شاعرانہ ہی سہی، یہ ہیں تو بے پرواہیاں

ہوشمندوں کے لیے مدھوشیاں چنتا رہا

وقف کر دیں میں نے ساری نرمیاں تِرے لیے

اور خود اپنے لیے میں سختیاں چنتا رہا

دیر تک میں بھی قمر اس کے چلے جانے کے بعد

آہٹیں، سرگوشیاں اور سِسکیاں چنتا رہا


قمر زیدی

No comments:

Post a Comment