Saturday, 30 October 2021

نظر میں جلوے ہی جلوے سمیٹ لائے ہیں

 نظر میں جلوے ہی جلوے سمیٹ لائے ہیں

ہم آج زہرہ جبینوں سے مل کے آئے ہیں

انہیں نمودِ سحر کا پیام بر کہیۓ

شبِ ستم میں بھی جو لوگ مسکرائے ہیں

زہے نصیب کہ لالہ رخوں کی محفل سے

ہم اپنے سینے میں کچھ پھول چن کے لائے ہیں

جلا کے دل کا لہو ہم نے روشنی کی ہے

چراغِ دیر و حرم جب بھی جھلملائے ہیں

بساط یہ ہے کہ بس ایک مشتِ خاک ہیں ہم

کمال یہ ہے کہ کون و مکاں پہ چھائے ہیں


جلیل ساز

No comments:

Post a Comment