نظر میں جلوے ہی جلوے سمیٹ لائے ہیں
ہم آج زہرہ جبینوں سے مل کے آئے ہیں
انہیں نمودِ سحر کا پیام بر کہیۓ
شبِ ستم میں بھی جو لوگ مسکرائے ہیں
زہے نصیب کہ لالہ رخوں کی محفل سے
ہم اپنے سینے میں کچھ پھول چن کے لائے ہیں
جلا کے دل کا لہو ہم نے روشنی کی ہے
چراغِ دیر و حرم جب بھی جھلملائے ہیں
بساط یہ ہے کہ بس ایک مشتِ خاک ہیں ہم
کمال یہ ہے کہ کون و مکاں پہ چھائے ہیں
جلیل ساز
No comments:
Post a Comment