سوچ رکھی تھیں بہت باتیں میں اب بُھول گیا
رنگ محفل ہی کچھ ایسا ہے کہ سب بھول گیا
وہ اذیت تھی کہ دن رات گزرتے ہی نہ تھے
پھر ہوا یوں کہ اذیت کا سبب بھول گیا
یہ مرا سر کو جھٹکنا تجھے سمجھاتا نہیں
کب تِرے سحر سے نکلا تجھے کب بھول گیا
ایک ہی رخ پہ پڑا خود سے میں اکتانے لگا
اتنا اکتایا کہ جینے کی طلب بھول گیا
تشنگی اتنی زیادہ تھی کہ پیتے پیتے
ایک دریا کے بہاؤ پہ میں لب بھول گیا
کیا تجھے یاد نہیں میرا صدائیں دینا
کیا مِری بانہیں مِری چشمِ طلب بھول گیا
دیکھنے والوں نے مڑ مڑ کے تجھے دیکھا تھا
جس نے بھی دیکھا وہی حدِ ادب بھول گیا
دیکھ تجھ غم میں گرفتار ہوں اتنا شاہد
میں شبِ ہفتہ کے سب عیش و طرب بھول گیا
شاہد فیروز
No comments:
Post a Comment