سہانے خواب آنکھوں میں سنجونا چاہتا ہوں
میں اب آرام سے کچھ دیر سونا چاہتا ہوں
شجر کو بار آور دیکھنا مقصد نہیں ہے
کہ میں تو بس زمیں پر خواب بونا چاہتا ہوں
مِرے ہنستے ہوئے بچو! یہ سارا گھر تمہارا
میں رونے کے لیے بس ایک کونا چاہتا ہوں
نواحِ زیست میں کیوں بارشیں ہوتی نہیں ہیں
میں پچھلے موسموں کے زخم دھونا چاہتا ہوں
بس اس کے آنے تک موسم مجھے سرسبز رکھنا
اسے اک خار اب میں بھی چبھونا چاہتا ہوں
مجھے بے خواب رکھتی ہے کبھی دنیا کبھی دل
میں بچوں کی طرح بے فکر سونا چاہتا ہوں
ہواؤ! کیا تمہارا مہرباں شانہ ملے گا
دہاڑیں مار کر میں آج رونا چاہتا ہوں
جسے ہے جاں عزیز اپنی اتر جائے کنارے
میں اپنی ناؤ موجوں میں ڈبونا چاہتا ہوں
سلیم اب آندھیوں سے ہم رکابی کس لیے ہے
سرِ مژگاں بچا کیا ہے کہ کھونا چاہتا ہوں
سلیم فراز
No comments:
Post a Comment