Sunday 31 October 2021

سوچتا ہوں وقت کی گردن پکڑ کر کھینچ لوں

سورج کا آتش کدہ


سوچتا ہوں 

وقت کی گردن پکڑ کر

ریشمی اسکارف کا پھندا لگا کر کھینچ لوں 

اور اتنی زور سے چیخوں

زمیں سے آسماں تک 

صرف میری چیخ ہی کا شور گونجے

وقت کی مرتی ہوئی آواز کوئی سن نہ پائے

سوچتا ہوں

وسعت آفاق میں پرواز کر کے

رات کی آنکھوں میں تاریکی کا پردہ ڈال کر میں

چاند تاروں کو چرا لاؤں زمیں پر

اور تھوڑی دیر

بچوں کی طرح خوش ہو کے کھیلوں

کھیلنے سے بھی جب اپنا دل نہ بہلے

ایک پتھر پر پٹخ کر

ہر کھلونے کو میں چکنا چور کر دوں

سوچتا ہوں

آسماں سے چھین کر

جلتے ہوئے سورج کی تھالی

ایک کشتی کی طرح

گہرے سمندر میں چلاؤں

اور اس پر ساری دنیا کو بٹھا کر

غرق کر دوں

سوچتا ہوں

سوچتے ہی سوچتے

میں خود ہی اک دن

سوچ کے آتش کدہ میں جل نہ جاؤں


کیف احمد صدیقی

No comments:

Post a Comment