حوصلہ اتنا ابھی یار نہیں کر پائے
خود کو رُسوا سر بازار نہیں کر پائے
دل میں کرتے رہے دنیا کے سفر کا ساماں
گھر کی دہلیز مگر پار نہیں کر پائے
ہم کسی اور کے ہونے کی نفی کیا کرتے
اپنے ہونے پہ جب اصرار نہیں کر پائے
ساعتِ وصل تو قابو میں نہیں تھی لیکن
ہجر کی شب کا بھی دیدار نہیں کر پائے
یہ تو آرائشِ محفل کے لیے تھا، ورنہ
علم و دانش کا ہم اظہار نہیں کر پائے
مہتاب حیدر نقوی
No comments:
Post a Comment