کتنا اندر سے جل گیا ہوں میں
جل کے ہی تو پگھل گیا ہوں میں
کم نہ تھی ساقی! تیری عطا لیکن
اپنے قدموں پہ چل گیا ہوں میں
تُو نے تھاما تو یوں لگا جیسے
گرتے گرتے سنبھل گیا ہوں میں
میں جو شیشہ تھا، اتنا ٹوٹا کہ
ایک پتھر میں ڈھل گیا ہوں میں
میں گریزاں وفا سے ہوں گویا
ایک برائی سے ٹل گیا ہوں میں
کس چالاکی سے ہر ایک چال
خلاف اپنے ہی چل گیا ہوں میں
جانے کیا درندگی سوجھی مجھے کہ خود
اپنی ہستی نگل گیا ہوں میں
کوئی آسِ وفا ہے نہ کوئی پاسِ وفا
ارسلان کتنا بدل گیا ہوں میں
ارسلان عباس
No comments:
Post a Comment