درد میں جب کمی سی ہوتی ہے
دل تڑپتا ہے آنکھ روتی ہے
وصل کی رات رات ہوتی ہے
قلب بیدار آنکھ سوتی ہے
سامنے ان کے لب نہیں کھلتے
بند گویا زبان ہوتی ہے
ایک قطرہ ہے ان کی مژگاں پر
یا کوئی لا جواب موتی ہے
بحر الفت میں کشتئ دل کو
موج امید ہی ڈبوتی ہے
آنکھ کہتی ہے غم کے افسانے
ایک ایسی گھڑی بھی ہوتی ہے
دل میں چٹکی سی لے رہا ہے کون
آنکھ کیوں بار بار روتی ہے
مل کے دو قلب جب بچھڑتے ہیں
زندگی زندگی کو روتی ہے
غم کی روداد پوچھنے والے
آنسوؤں کی زبان ہوتی ہے
دل جلا آسماں نہ جل جائے
آہ بے کس خراب ہوتی ہے
بے ضرورت سی گفتگو شاطر
اعتبار آدمی کا کھوتی ہے
شاطر حکیمی
No comments:
Post a Comment