Wednesday, 27 October 2021

درد میں جب کمی سی ہوتی ہے

درد میں جب کمی سی ہوتی ہے

دل تڑپتا ہے آنکھ روتی ہے

وصل کی رات رات ہوتی ہے

قلب بیدار آنکھ سوتی ہے

سامنے ان کے لب نہیں کھلتے

بند گویا زبان ہوتی ہے

ایک قطرہ ہے ان کی مژگاں پر

یا کوئی لا جواب موتی ہے

بحر الفت میں کشتئ دل کو

موج امید ہی ڈبوتی ہے

آنکھ کہتی ہے غم کے افسانے

ایک ایسی گھڑی بھی ہوتی ہے

دل میں چٹکی سی لے رہا ہے کون

آنکھ کیوں بار بار روتی ہے

مل کے دو قلب جب بچھڑتے ہیں

زندگی زندگی کو روتی ہے

غم کی روداد پوچھنے والے

آنسوؤں کی زبان ہوتی ہے

دل جلا آسماں نہ جل جائے

آہ بے کس خراب ہوتی ہے

بے ضرورت سی گفتگو شاطر

اعتبار آدمی کا کھوتی ہے


شاطر حکیمی 

No comments:

Post a Comment