جب دل سے محبت کے ارمان نکلتے ہیں
سب رنج و مسرت کے عنوان نکلتے ہیں
افلاس کے کھیتوں کی مٹی سے گلے مل کے
دن ڈھلتے بدن ہارے دہقان نکلتے ہیں
اے شہرِ ہوس تیرے منحوس دریچوں سے
بہروپ میں انساں کے شیطان نکلتے ہیں
یادوں کے شبستاں کی دہلیز پہ سر رکھے
آہٹ پہ تیری اب بھی ہر آن نکلتے ہیں
ہم آج بھی بِن تیرے ہنگامِ زمانہ میں
''جب گھر سے نکلتے ہیں حیران نکلتے ہیں''
زریں منور
No comments:
Post a Comment