جب بھی لکھنا تو یہی رنج و مسرت لکھنا
پڑ گئی ہم کو تیری یاد کی عادت لکھنا
یہ تری ہم سے شب و روز تغافل کی روش
عین ممکن ہے کوئی ڈھائے قیامت لکھنا
تیری محفل میں چلے آنے کی اے جانِ غزل
صرف اک بار ہی مل جائے اجازت لکھنا
تجھ کو معلوم نہیں ہے کہ ترے جانے سے
گھر میں باقی نہ بچا کچھ بھی سلامت لکھنا
اپنا سایہ بھی ہوا باعثِ وحشت اب کے
عام اتنی ہے زمانے میں عداوت لکھنا
عمر بھر سوچتے رہنے سے کہیں بہتر ہے
ایک لمحہ کسی مقتل میں بغاوت لکھنا
اب تیرے شہر میں ہم درد کے ماروں کے سوا
"اور سب بُھول گئے حرفِ صداقت لکھنا"
زریں منور
No comments:
Post a Comment