جب بھی تم سے بات ہوتی ہے
اندیشوں کے تانے بانے
مایوسی کے سارے چہرے
سرشاری کی چادر لے کر
چُھپ جاتے ہیں
اور اس سرخوشی کی گُن میں
مدت سے منتظر وہ
مِرے گمان کے سارے قیدی
تیرہ شبی کے راہی
لفظوں کی قندیل سجائے
نئے سے کارواں سجاتے ہیں
گردِ راہ اُڑاتے ہیں
مجیب ظفر انوار حمیدی
No comments:
Post a Comment