لمس سے محروم آدمی
میں جس عورت کے لمس سے محروم ہوں
جانے کیوں اسی کی بانہوں میں پڑا رہتا ہوں
جو عورت میری نہیں ہو سکی
مجھے اس سے کوئی شکایت بھی نہیں ہے
مگر مجھے کچھ بھی اچھا نہیں لگتا
میں اکثر سوچتا ہوں
کیا سب کچھ اسی کے پاس تھا
کیا دوسری عورتیں دنیا پر فقط بوجھ ہیں
مجھے اپنی کچھ سمجھ نہیں ہے
اور کوئی دوسری عورت
مجھے سمجھنے کے لیے
کسی دوسرے سیارے سے آئے گی نہیں
ایسا نہیں ہے کہ
میں جینے کی کوشش نہیں کرتا
میں روز کمرے کی کھڑکی کھولتا ہوں
اونچائی سے شہر کا کھلا نظارہ کرتا ہوں
برقعوں میں لپٹی عورتوں کی بھیڑ میں
اتنے ہی آدمی تنہا پھرتے ہیں
میری طرح ان آدمیوں کو بھی
کسی عورت کے لمس سے
محروم ہونے کا شکوہ تو رہتا ہو گا
شہر کی چار دیواری پر تعینات
مذہب کے رکھوالے
خود تو دو چار عورتوں کے ساتھ
ہمبستری سے محظوظ ہوتے ہیں
اور میری طرح
فقط ایک ہی عورت کے لیے ترستا آدمی
اس کے لمس سے عمر بھر محروم رہتا ہے
مجھے باقی آدمیوں کا نہیں معلوم
مگر قابضین شہر کو خبر ہونی چاہیۓ
میں اسی عورت کی بانہوں میں روز پڑا رہتا ہوں
جس کے لمس سے میں محروم کردیا گیا ہوں
صفی سرحدی
No comments:
Post a Comment