اپنے اپنے ستارے
مجھے بھیڑ اچھی نہیں لگتی
راستوں میں نہ میدانوں میں
شادیوں میں نہ جنازوں میں
بس میں سفر سے پیدل چلنا بہتر ہے
میں نائیوں کی دُکانوں پر نہیں جاتا
ہوٹلوں سے دور رہتا ہوں
میں جلسوں میں جاتا ہوں نہ عبادت گاہوں میں
جہاں وہ دنیا اور آخرت کے راز بیچتے ہیں
جو وہ خود نہیں جانتے
ان کی جنت اور ان کا جہنم
ایک سے لگتے ہیں مجھے
پر ہجوم جڑواں شہروں جیسے
وہ مجھے بتاتے ہیں
سب داخل کیے جائیں گے
اچھے بھی اور برے بھی
الگ الگ دروازوں سے
میں چاہتا ہوں
ہر انسان کے لیے ہو
ایک ذاتی جنت ایک ذاتی جہنم
تنہائی کی بے کرانی میں
تیرتے آوارہ ستاروں پر
جہاں اگائے جا سکیں
ہمیشہ مہکتے پھول اور پھل
جہاں دہکائی جا سکے
کبھی نہ بجھنے والی آگ
افتخار بخاری
No comments:
Post a Comment