ہزار شکوے کرو، پاس آ کے بات کرو
یہ کیا کہ سارے جہاں کو سنا کے بات کرو
اگر علیحدگی ہی کی ٹھان لی ہے صنم
تو اِک گلہ نہ کرو کُھل کھلا کے بات کرو
ہر آن تیوری پہ تیوری چڑھائے رکھتے ہو
کبھی تو ہم سے صنم کِھل کِھلا کے بات کرو
اشاروں اور کنایوں کو بھی سمجھتا ہوں
تو کیا ضرور ہے تم گَڑگَڑا کے بات کرو
رُخِ حسیں پہ عتاب و غضب نہیں سجتے
پری جمال ہو کیوں تِلمِلا کے بات کرو
زمانے بھر کے ستائے ہوئے ہم آتے ہیں
کبھی تو جانِ غزل مسکرا کے بات کرو
برائے دید و شنید آئے ہیں بصد ارماں
سنگھار سولہ کرو جگمگا کے بات کرو
یہ پتھروں کے صنم ٹس سے مس نہیں ہوتے
ہزار آہ بھرو، گِڑگِڑا کے بات کرو
ہزار بار دلِ زار نے کہا ناصر
اگر وہ آتے نہیں تم ہی جا کے بات کرو
فیض الحسن ناصر
No comments:
Post a Comment