کہیں صحرا کہیں سُوکھے شجر اچھے نہیں لگتے
مجھے اب خواب زاروں کے سفر اچھے نہیں لگتے
وفاؤں کا بھرم ٹُوٹے تو کیوں زندہ رہے کوئی
کہ جب دستار گِر جائے تو سر اچھے نہیں لگتے
جوابی خط میں اس نے یوں میرے بارے میں لکھا ہے
تمہیں بُرا بھی کہہ نہیں سکتے مگر اچھے بھی نہیں لگتے
نہیں میں مصروف اتنا کہ گھر کا رستہ بُھولوں
نہ ہو جب مُنتظر کوئی تو گھر اچھے نہیں لگتے
مجھے اے وقت کے حاکم! تجھے اتنا بتانا ہے
مِرے بچوں کو بارودی نگر اچھے نہیں لگتے
سمندر تیرتی لاشوں سے کہتا رہا یہ شب بھر
مجھے بھی ڈُوبنے والے بھنور اچھے نہیں لگتے
نہیں ایسا کہ اب پرواز کی طاقت نہیں باقی
میری اُمید کے پنچھی کو گھر اچھے نہیں لگتے
مدثر عظیم
No comments:
Post a Comment