سینے پہ کب سے ہاتھ ہے اور ہٹ نہیں رہا
میں ہجر کاٹتا ہوں مگر کٹ نہیں رہا
بالوں میں آ گئی ہے سفیدی اور ایک تُو
ایسا بسا ہے دل میں ذرا گھٹ نہیں رہا
اتنا بھی میری ذات پہ تُو بد گماں نہ ہو
میں پڑھ رہا ہوں یار تجھے رٹ نہیں رہا
یہ جسم ہو رہا ہے ناں تقسیم ہونے دو
میں ذہنی طور پر تو کہیں بٹ نہیں رہا
تُو میرے ساتھ رہ کے بھی اُکتا ہی جائے گا
میں خود بھی اپنے ساتھ کبھی جھٹ نہیں رہا
پانی گھروں میں آ گیا دل کو خوشی ہوئی
اور دُکھ بھی ہے کہ گاؤں میں پنگھٹ نہیں رہا
میثم علی آغا
No comments:
Post a Comment