زندگی ریگِ دہشت پہ کمھلائے گی، جی نہیں مانتا
دِل میں جراُت کبھی گھر نہ کر پائے گی، جی نہیں مانتا
میں نے مانا سمندر ہے رُت ہجر کی، پر کنارے تلک
موج کوئی مچل کر نہیں آئے گی، جی نہیں مانتا
خواب ہی کے کنارے تمنا کی پرواز ہے رات، دن
راہ ملنے کی کوئی نہ بن پائے گی، جی نہیں مانتا
سُن رکھا تھا محبت میں حد سے گزرنا برا ہے، مگر
کیا محبت کی حد ناپ لی جائے گی، جی نہیں مانتا
لوگ کیسے ہیں خود کو بھلائے ہوئے جی رہے ہیں یہاں
خواب دیکھے بِنا صبح ہو جائے گی، جی نہیں مانتا
بیکراں حوصلے کے گلے لگ کے کہنے لگی آرزو
تا ابد وصل کی رُت نہیں آئے گی، جی نہیں مانتا
ماہ طلعت زاہدی
No comments:
Post a Comment