بس ایک لمحے میں دل کی قیمت نکال دی تھی، مثال دی تھی
کہ خاک لے کر ہوا میں اس نے اچھال دی تھی، مثال دی تھی
جو دُھن پیانو پہ تم نے چھیڑی، ہماری سنگت سے رچ رہی تھی
وہ سازِ دل کا تھا استعارہ،۔ جو تال دی تھی، مثال دی تھی
میں اس قبیلۂ مصر سے ہوں، کہ جس کی نِسبت حیا رہی ہے
تمہارے شانوں پہ اوڑھنے کو جو شال دی تھی، مثال دی تھی
یہ راجا رانی سے مات کرنے کا کھیل ہم سے ہی تم نے سیکھا
وزیر دے کر تمہارے ہاتھوں میں چال دی تھی، مثال دی تھی
تمہاری آنکھوں کا پوچھتے ہیں یہ سب ستارہ شناس مجھ سے
بتا بتا کر میں تھک گیا ہوں، مثال دی تھی، مثال دی تھی
عاطف جاوید عاطف
No comments:
Post a Comment