جو مال غریبوں کا دن رات لٹا ہو گا
تاریک لحد میں کیا انجام ہوا ہو گا
کیا حال ہوا ہو گا اے یار ہوا ہو گا
جب بھوک کا سورج اس کے گھر میں اُگا ہو گا
دہلیز پہ یادوں کے دستک تو دیا ہو گا
جب جاکے کہیں یارا دروازہ کھلا ہو گا
فرقت میں تِری جاناں دن رات جلا ہو گا
بے ضد یہ جو سویا ہے جل جل کے بجھا ہو گا
اک چہرہ ہزاروں میں آتا ہے نظر یارا
جب خاک کو چہرے پر طیبہ کی مَلا ہو گا
تم نے تو جلائے ہوں گے خشک سبھی پتّے
گلشن کا ہرا پودا بھی یار جلا ہو گا
محفل میں کسی کے آنے جانے سے اے یارا
کیا مجھ کو خبر تھی کے پھر زخم ہرا ہو گا
محفل میں وہ جو ہنستا ہے اور ہنساتا ہے
جاں لیوا کوئی سینے میں درد چھپا ہو گا
ہمراہ مِرے ہے برسوں سے یہ سنو دلکش
غم تیرا کہو تم ہی کب دل سے جدا ہو گا
مصطفیٰ دلکش
No comments:
Post a Comment