کل رات میں شکستِ ستمگر سے خوش ہوا
وہ رو پڑا تو دل مِرا اندر سے خوش ہوا
دریا تھا، چاند رات تھی اور اس کا ساتھ بھی
لیکن میں ایک اور ہی منظر سے خوش ہوا
خوش وہ ہے جس کے واسطے دنیا سراب ہے
اس کی خوشی بھی کیا جو میسر سے خوش ہوا
اس آسماں کے نیچے نہیں ایسی کوئی بات
جو خوش ہوا وہ اپنے مقدر سے خوش ہوا
رک سا گیا تھا آنکھ کی خشکی کے درمیاں
چھلکا تو میں بھی اپنے سمندر سے خوش ہوا
جب بھی ہجومِ عشق نورداں میں آیا وہ
دو چار سے خفا ہوا اکثر سے خوش ہوا
میں اس کے ہم سفر سے ملا اس تپاک سے
اندر سے جل کے رہ گیا باہر سے خوش ہوا
غم بانٹنا تو رسمِ جہاں ہے، مگر جمال
وہ خوش ہوا تو میں بھی برابر سے خوش ہوا
جمال احسانی
No comments:
Post a Comment