عبث ہیں چاہے تُو جتنے بھی میرے چاؤ اُٹھا
خلوص ہے تو ٹھہر ورنہ رکھ رکھاؤ اٹھا
لُبھا گئی اسے میری پھٹی ہوئی پوشاک
امیر زادی کا مخمل سے پھر لگاؤ اٹھا
میں اپنی موج میں شائد یہاں ٹھہر جاؤں
مری کلائی سے تُو ہاتھ کا دباؤ اٹھا
جہاں فقیر کو خیرات میں ملے جِھڑکی
زُباں درازوں کے اس شہر سے پڑاؤ اٹھا
رواں دواں ہوں محبت میں میری سمت نہ دیکھ
تُو اپنی لہر میں جذبات کا بہاؤ اٹھا
نمودِ رنج کی برسوں سے آرزو تھی تجھے
سو اب تُو گریہ کی اس فصل کا کٹاؤ اٹھا
کراہوں دل پہ رکھے ہاتھ درد سے میں حسن
وہ ٹیس میرے رفوگر درونِ گھاؤ اٹھا
عطاءالحسن
No comments:
Post a Comment